جو راز اس کے مونہہ سے اچانک نکل گیا
میرے شک و شکوک کو یکسر بدل گیا
کرتے تھے سب دعائیں اٹھا کر فلک کو ہاتھ
برہم ہے آسمان کہ انساں بدل گیا
دیتے ہیں درسِ صبر مساجد میں قبلہ شیخ
یہ صبر نہیں بے بسی ہے جو بھی مل گیا
رمضان میں تو حُسن سے دُوری کا عہد تھا
چلمن اُٹھی بیساختہ تو دل مچل گیا
کافر کو ملا دَیر میں مسلم کو درس میں
بدعات عام ہو گئیں نقشہ بدل گیا
تھا التفاتِ دوستاں ماضی کے عہد میں
بدلہ زمانہ ایسا یہ کانٹا نکل گیا
تیرے بغیر بھی تو ہم زندہ رہے امید
گر تم نہیں ملے تو کہاں حشر ٹل گیا

0
4
194
پچھلی غزل کی طرح کچھ اشعار معنی اچھی طرح نا دے سکے جیسے آسماں قصہ آدم کیسے نگل گیا یانی دعا اب نا مانگو ۔۔۔مھ مل سا شعر ہے

0
یہاں انسان کی بے بسی کا منظر ہے کہ کبھی اسی آسماں کے سامنے ہم ہاتھ اٹھائے دستِ سوال دراز کرتے تھے مگر اب یہی آسمان آدم کی بات ہی نہیں سُن رہا یعنی دعائیں قبول نہیں کر رہا
اکثر شعرا ایسی شکائتیں آسمان سے کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں انسان کی ساری پریشانیاں آسمان سے نازل ہوتی ہیں
مجھے تو اسمیں کوئی ابہام نظر نہیں آ رہا

0
اچھا پھر قصہ آدم کی جگہ آدم نگل گیا ہونا چاہیے کہ قصہ آدم تو باقی ہے بے اعتنائی تو دعا آدم سے ہے نا

0
میری دانست میں یہاں بے اعتنائی آسمان سے ہے

0