کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں
شاخِ جاں پر کھلے ہیں خون کے پھول
غم نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں
دائرے میں ہے دائرہ کوئی
کرو گے کب تلک سفر مجھ میں
ہر طرف میں ہوں اور کچھ بھی نہیں
ہے مگر بے کراں سا ڈر مجھ میں
کیا حقیقت ہے کیا ہے وہمِ وجود
کچھ کہو کیا ہے معتبر مجھ میں
"وہ" بھی ابلیس اور آدم بھی
رہتے ہیں کتنے جانور مجھ میں
میں کہ اک سانحہ ہوں لمحوں کا
ہوتا کیا کیا ہےلمحہ بھر مجھ میں
خوابوں کے کتنے شہر جلتے ہیں
کتنے مرقد ہیں بے خبر مجھ میں
میری انگلی پکڑ کے میرے ساتھ
کون پھرتا ہے در بہ در مجھ میں
اب وہ آرامِ جاں وہ نیند کہاں
کھلتے ہیں زخم رات بھر مجھ میں
بس کنارے کنارے چلتی ہو
کبھی تو میری جاں اتر مجھ میں
عشق خنجر چلا ہے ایسے کہ بس
خوں سے ہے ذرہ ذرہ تر مجھ میں
موسمِ گل کے باوجود رہے
باغ کتنے ہی بے ثمر مجھ میں
مجھ میں ہی پھر ہوا یہ قصہ تمام
مر گیا میرا ہمسفر مجھ میں
کتنے ہی جسم پوجنے لگے گے
سایہ بن کے کبھی ٹھہر مجھ میں
اب تو آئے کوئی مرے اندر
اب تو کھلنے لگے ہیں در مجھ میں
اب تو مجھ میں میں بھی نہیں رہتا
اب تو کر کوئی شب بسر مجھ میں

0
2
89

کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں

آغازِ سفر اچھا ہے

بہت بہت شکریہ محترم