غمِ فراق کا جو ماجرا کہا ، تو کہا “ تری یہی ہے سزا”
فراق میں ترے میں مر رہا ، کہا، تو کہا “ بلا سے جا مر جا”
وصالِ شوق میں ہوں مبتلا، کہا، تو کہا، “ میں کیا کروں یہ بتا”
یہ عشق مجھ کو کرے گا فنا ، کہا، تو کہا، “ یہ ہے ہی ایسی بلا”
تو آخرش کی ہے مجھ سے دغا، کہا، تو کہا،” ہے کیا کچھ اس میں نیا؟”
مجھے تھی تم سے امیدِ وفا، کہا ، تو کہا، “ یہ میرا مسئلہ کیا؟”
وہ تیرے وعدے سبھی ، ہیں کہاں وہ قول و قرار ؟ “تو بولے استغفار”
جفا پہ اس کی جب اس کو برا کہا، تو کہا، “ابے تُو جاتا ہے کیا؟”
یہ اضطرابِ جدائی، یہ دشتِ تنہائی “ یہ آبلہ پائی”
کہ ان بلاؤں سے مجھ کو بچا، کہا، تو کہا، “ یہ ہے نصیب ترا”
ترے بغیر مری آنکھوں میں نمی رہے گی “ تری کمی رہے گی”
بچھڑنے کا نہیں ہے حوصلہ، کہا، تو کہا، “یہ تو ہو کے رہے گا”
غمِ حیات سے کچھ تو اے زیبؔ مہلت ہو “ سکوں کی صورت ہو”
ہے وحشتوں کا یہاں سلسلہ، کہا، تو کہا، “ اسی میں تو ہے مزہ”

4
237
اس کی بحر کونسی ہے؟

مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن

مستزاد کلام ایسا کلام ہوتا ہت جس میں ہر مصرع کے آخر پر الفاظ کا ایک ایسا مجموعہ لگایا جاتا ہے جو اسی مصرعے کی بحر کے پہلے اور آخری رکن کے برابر ہوتا ہے
مثلا



“تری یہی ہے سزا” یہ الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو ( غمِ فراق کا جو ماجرا کہا، تو کہا) اس مصرع کی اس بحر ( مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن) کے پہلے رکن ( مفاعلن) اور آخری رکن ( فعلن ) کے برابر ہے

اسامہ صاحب میرا یہی خیال ہے کہ ان متروک اصنافِ سخن میں لکھ کر آپ اپنی محنت ضائع کریں گے۔
کسی زمانے میں جب شاعر کو شاید سواۓ شاعری کے کوی کام نہ ہوتاہوگا تو وہ ان سب چیزوں میں زبردستی اپنا وقت لگاتا ہوگا۔
اس طرح کی اصنافِ سخن آمد نہیں ہو سکتیں یہ محض آورد ہوتی ہیں۔
اب زمانہ بہت بدل گیا ہے - میرے خیال میں پابند یا آزاد نظم اپنی ہیئت اور انداز کے اعتبار سے آج کے زمانے کے لیئے بہترین ہے۔ یا پھر غزل بھی موجود ہے -
میں تو یہی مشورہ دونگا کہ آپکے پاس پوٹنشیل ہے تو اسے ان اصنافِ سخن میں لگائیں جنکی پہنچ وسیع ہے اور جو ہمارے زمانے کو راس ہیں-

جی محترم آپ کی بات بالکل بجا ہے
مگر مستزاد کلام ابھی بھی رائج ہے داغ دہلوی نے بھی اس پر لکھا ہے
آجکل شاعر مستزاد کلام نہیں لکھتے مگر یہ متروک نہیں ہے
باقی آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں میں
ویسے تو میں غزل ہی لکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی کچھ نئی چیز لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

0