غمِ فراق کا جو ماجرا کہا ، تو کہا “ تری یہی ہے سزا” |
فراق میں ترے میں مر رہا ، کہا، تو کہا “ بلا سے جا مر جا” |
وصالِ شوق میں ہوں مبتلا، کہا، تو کہا، “ میں کیا کروں یہ بتا” |
یہ عشق مجھ کو کرے گا فنا ، کہا، تو کہا، “ یہ ہے ہی ایسی بلا” |
تو آخرش کی ہے مجھ سے دغا، کہا، تو کہا،” ہے کیا کچھ اس میں نیا؟” |
مجھے تھی تم سے امیدِ وفا، کہا ، تو کہا، “ یہ میرا مسئلہ کیا؟” |
وہ تیرے وعدے سبھی ، ہیں کہاں وہ قول و قرار ؟ “تو بولے استغفار” |
جفا پہ اس کی جب اس کو برا کہا، تو کہا، “ابے تُو جاتا ہے کیا؟” |
یہ اضطرابِ جدائی، یہ دشتِ تنہائی “ یہ آبلہ پائی” |
کہ ان بلاؤں سے مجھ کو بچا، کہا، تو کہا، “ یہ ہے نصیب ترا” |
ترے بغیر مری آنکھوں میں نمی رہے گی “ تری کمی رہے گی” |
بچھڑنے کا نہیں ہے حوصلہ، کہا، تو کہا، “یہ تو ہو کے رہے گا” |
غمِ حیات سے کچھ تو اے زیبؔ مہلت ہو “ سکوں کی صورت ہو” |
ہے وحشتوں کا یہاں سلسلہ، کہا، تو کہا، “ اسی میں تو ہے مزہ” |
معلومات