حالات کا بہانہ بناکر نکل گئے
یوں ظلم کا نشانہ بنا کر نکل گئے
کیا فتنہ گر تھے ایک ہی دن کا قیام تھا
بستی قمار خانہ بنا کر نکل گئے
ہر موڑ پر شکست کے آثار تھے مگر
انداز فاتحانہ بنا کر نکل گئے
رشتوں میں اتنے نقص تھے اپنوں کے اور ہم
دشمن سے دوستانہ بنا کر نکل گئے
تھا سحر شخصیت کا یا جادو نظر میں تھا
دل کو طلسمِ خانہ بنا کر نکل گئے

1
145
اک زندگی فسانہ بنا کر نکل گئے
وہ ہم سے دوستانہ بنا کر نکل گئے
تنہاؔ

0