دل کی آواز بجا نقش بہ دیوار بھی دیکھ
مال و دولت ہی نہیں صاحبِ کردار بھی دیکھ
عین ممکن ہے کسی بات میں کچھ جھُول بھی ہو
ہاں مگر دوست کسی دوست کا ایثار بھی دیکھ
ابر آلود نہیں مطلع ابھی دُور تلک
خسِ گرداب میں طوفان کے آثار بھی دیکھ
جس نے خیبر کو تہہِ تیغ کیا کون تھا وہ
چشمِ دل وا ہو تو آ حیدرِ کرّار بھی دیکھ
عمر گزری ہے تری شاہ کے ایوانوں میں
پاؤں کے نیچے کبھی عسرتِ نادار بھی دیکھ
اپنی اولاد پہ جی بھر کے لٹایا زر و مال
دال کے نرخ پہ محتاج کی تکرار بھی دیکھ
مرے احباب مجھے کہتے ہیں ناقص شاعر
اچھّا تسلیم ہے پر آ مرے افکار بھی دیکھ
بزمِ ہستی کا شفق ڈوب گیا شام ہوئی
اپنے اطوار بدل رات کے آثار بھی دیکھ
کٹ گئی زندگی ہالینڈ کی گلیوں میں امید
مَوت نزدیک ہے اب قبر کے آثار بھی دیکھ

2
186
"مال و دولت ہی نہیں صاحبِ کردار بھی دیکھ
اور
عین ممکن ہے کسی بات میں کچھ جھُول بھی ہو
اور
دال کے نرخ پہ محتاج کی تکرار بھی دیکھ
اور
اچھّا تسلیم ہے پر آ مرے افکار بھی دیکھ"

درج بالا تمام مصرعے۔۔
از دل خیزد،
بر دل ریزد۔
بہت اعلی

0
شکریہ

0