دل کی آواز بجا نقش بہ دیوار بھی دیکھ |
مال و دولت ہی نہیں صاحبِ کردار بھی دیکھ |
عین ممکن ہے کسی بات میں کچھ جھُول بھی ہو |
ہاں مگر دوست کسی دوست کا ایثار بھی دیکھ |
ابر آلود نہیں مطلع ابھی دُور تلک |
خسِ گرداب میں طوفان کے آثار بھی دیکھ |
جس نے خیبر کو تہہِ تیغ کیا کون تھا وہ |
چشمِ دل وا ہو تو آ حیدرِ کرّار بھی دیکھ |
عمر گزری ہے تری شاہ کے ایوانوں میں |
پاؤں کے نیچے کبھی عسرتِ نادار بھی دیکھ |
اپنی اولاد پہ جی بھر کے لٹایا زر و مال |
دال کے نرخ پہ محتاج کی تکرار بھی دیکھ |
مرے احباب مجھے کہتے ہیں ناقص شاعر |
اچھّا تسلیم ہے پر آ مرے افکار بھی دیکھ |
بزمِ ہستی کا شفق ڈوب گیا شام ہوئی |
اپنے اطوار بدل رات کے آثار بھی دیکھ |
کٹ گئی زندگی ہالینڈ کی گلیوں میں امید |
مَوت نزدیک ہے اب قبر کے آثار بھی دیکھ |
معلومات