میں کون اور کیا ہوں؟ |
میں شاعر نہیں ہوں |
کہ مجھ کو لگے شاعری قدرتی ہے |
کہ شاعر کی فطرت کسی دردِ دل کو |
یوں بحروں میں بھر کر ہے مصرعے بنائے |
میں وہ تو نہیں ہوں |
میں عاشق نہیں ہوں |
کہ عاشق کی آنکھوں کو باہر کی دنیائیں دِکھتی نہیں ہیں |
اس کی نگاہیں کسی غیر پہ جا کے ٹِکتی نہیں ہیں |
وہ اپنے ہی جوہر کو لاوا بنائے |
معشوق کا پھر سراپا بنائے، اسی میں سمائے |
میں وہ تو نہیں ہُوں |
میں تاجر نہیں ہوں ، نہ مُوجِد انوکھا |
نہ بھونرا نہ ڈاکو نہ عیار واعظ |
نہ درویش صوفی ، نہ رہبر نہ رہزن |
نہ راہی نہ رہ رو نہ قاضی نہ مجرم |
نہ بچے مرے ہیں نہ میں خود کسی کا |
کہ تھا شکمِ مادر میں جانے سے پہلے |
کہ دھوکے کی دنیا میں آنے سے پہلے |
تو وہ بھی تو ہونگے، سبھی اگلے پچھلے |
مرا نام بھی میرا اپنا نہیں ہے |
کہ میں نے اسے آپ رکھا نہیں ہے |
مرے چہرے جیسے ہزاروں ہیں چہرے |
تو پھر کون کیا ہوں؟ کہاں میں کھڑا ہوں؟ |
خدا کو بھی میں نے تو دیکھا نہیں ہے، پایا نہیں ہے |
بتایا گیا ہے ، ترا اک خدا ہے، دیکھا نہیں ہے |
بس ایک آئینہ ہے خلا میں معلق |
کہ مَیں جس میں اپنے ہی چہرے کو دیکھوں |
جو اشکوں سے تر ہے جھکا جس کا سر ہے |
جو مجھ میں سما کے مرے پاس آ کے تو یوں بولتا ہے |
" میں ہوں ایک بندہ کہ جس کا خدا ہے |
مرے تن کی مٹی کی ہے ایک قیمت |
ہر اک بات کی اوّل آخر حقیقت |
کہ خیر الوریٰﷺ کا میں ایک امتّی ہوں |
ہاں ایک امتّی ہوں میں خیر الوریٰﷺ کا" |
معلومات