کچھ ایسا ترا شہر میں چرچا ہے کہ مت پوچھ!
جس سے بھی ترا پوچھا تو کہتا ہے کہ مت پوچھ!
اک نازنی طائر کی وہ بے باکیاں جس سے
صَیّاد قفس کا بھی وہ شیدا ہے کہ مت پوچھ!
بیٹھا ہے کوئی کوچۂ جاناں میں شب بھر
اس شوخ نے دل میں وہ ٹھانا ہے کہ مت پوچھ!
میں اب بھی اگر بے خودی کے دام میں ہوں تو
کچھ ساقی نے ایسا بھی پلایا ہے کہ مت پوچھ!
دستِ دعا کے بال و پر اب نہیں ورنا
تقدیر کا ڈوبا بھی وہ نکلا ہے کہ مت پوچھ!
"بر چادر تو وصله زد امروز قناعت"
اک وقت کبھی ایسا بھی گزرا ہے کہ مت پوچھ!
جس حسرتِ ناکام کو دفنا آئے شا
کچھ ایسا اُسی خاک میں دھڑکا ہے کہ مت پوچھ!

5
42
آخری شعر ایک مرتبہ اور دیکھ لیں-

اچھا، میں دیکھتا ہوں۔

0
عشیار بھائی،

جو چیز میں نے اس عزل سے سیکھی وہ یہ تھی کہ عزل کے قافیہ اور ردیف انسان کی catharsis پر بہت اثر ڈالتی ہے۔

قافیہ اور ردیف ایسے ہونے چاہیے کہ انہیں آسانی سے کسی بھی طرف موڑا جاسکتا ہو۔

0
آپ نے صحیح سمجھا- آپ حرفِ روی کے بارے میں بھی پڑھ لیں-
اگر ممکن ہوا میں ایک لنک بھیجوں گا- یو ٹیوب پر ایک چینل ہے آپ کو بہت مدد ملے گی انشااللہ-


0