کچھ ایسا ترا شہر میں چرچا ہے کہ مت پوچھ! |
جس سے بھی ترا پوچھا تو کہتا ہے کہ مت پوچھ! |
اک نازنی طائر کی وہ بے باکیاں جس سے |
صَیّاد قفس کا بھی وہ شیدا ہے کہ مت پوچھ! |
بیٹھا ہے کوئی کوچۂ جاناں میں شب بھر |
اس شوخ نے دل میں وہ ٹھانا ہے کہ مت پوچھ! |
میں اب بھی اگر بے خودی کے دام میں ہوں تو |
کچھ ساقی نے ایسا بھی پلایا ہے کہ مت پوچھ! |
دستِ دعا کے بال و پر اب نہیں ورنا |
تقدیر کا ڈوبا بھی وہ نکلا ہے کہ مت پوچھ! |
"بر چادر تو وصله زد امروز قناعت" |
اک وقت کبھی ایسا بھی گزرا ہے کہ مت پوچھ! |
جس حسرتِ ناکام کو دفنا آئے شا |
کچھ ایسا اُسی خاک میں دھڑکا ہے کہ مت پوچھ! |
معلومات