لب کھولنے سے پہلے ذرا یہ خیال ہو
ایسا نہ کچھ کہو کہ تمہں پھر ملال ہو
موقع ملا ہے اس کو گنواؤ نہ اس طرح
کچھ ایسا تم کرو کہ جو بس بے مثال ہو
پکڑو عزیز جاں سے بھی کردار کو سبھی
انگلی کوئی اٹھے نہ کوئی بھی سوال ہو
وقتی خوشی کو پانے کو ایسا نہ کچھ کرو
دلدل ہو جس میں پھنسنے کا پھر احتمال ہو
سرمایہ کا نظام ہے گر مفت کچھ ملے
یہ دیکھ لو کہ کوئی نہ دشمن کی چال ہو
دانائی پر تمھاری مجھے کوئی شک نہیں
یہ ہے کہ تم ابھی ذرا کچھ خورد سال ہو

4
136
اچھا خیال ہے۔

ممکنہ تصحیح
" پکڑو عزیز جاں سے بھی کردار کو سبھی"

"محنت کیے بغیر نہ پھیلا کے ہاتھ لو"

لکھتے رہیے
خوش رہیں سدا

"محنت کیے بغیر اگر ہاتھ آئے کچھ"

زیادہ بہتر رہے گا

Wow, speechless, should I go ahead and make the amendments? Please keep reviewing my ramblings, I really appreciate your time and consideration. 

0
آپ کے لیے ہی لکھا ہے جناب

خوش رہیں آپ!