عجیب خبریں سنا رہے ہیں
ہمیں یہ اُلو بنا رہے ہیں
یہ سوچ قائم رہے گی کیسے
پرندے بے پر اُڑا رہے ہیں
وہی عدو ہیں تیری نظر میں
کبھی جو تیری دُعا رہے ہیں
خدا ہی جانے یہ نفرتیں کیوں؟
وہ خط ہمارے جلا رہے ہیں
کہیں کسی کو دیئے دلاسے
کہیں گرے کو گِرا رہے ہیں
جو کل تلک میرے ہم نوا تھے
نظر نہ اب وہ ملا رہے ہیں
پرانے لہجے کے لوگ عابد
غزل نئی اب سُنا رہے ہیں

2
79
مقطع خوب ہے۔

بہت شکریہ مصدق صاحب

0