سبز گنبد کے مکیں تک آ گیا
آسماں دیکھو زمیں تک آ گیا
چاند چھپ جائے گا آقا جب کبھی
آپ کے نورِ جبیں تک آ گیا
رک گئے سدرہ پہ جبریلِ امیں
اور وہ پردہ نشیں تک آ گیا
حسنِِ یوسف رہبری کے واسطے
آپکی زلفِ حسیں تک آ گیا
چھو کے دکھلائیں مجھے اب غم کہ میں
پاسبانِ عالمیں تک آ گیا
جنبشِ ابرو پہ سورج کا طلوع
عشق یوں بامِ یقیں تک آ گیا
خاکِ پائے مصطفٰی آنکھوں میں ہے
قافِلہ خلدِ بریں تک آ گیا
گردشیں دم توڑ جاتی ہیں جہاں
خوش مقدر میں وہیں تک آ گیا
کیوں نہ حیدر ہو سخن اب لازوال
ذکرِ شاہِ مرسلیں تک آ گیا

2
16
سبحان اللہ
کیا کہنے
بہت اعلٰی ہدیۂ عقیدت

رک گئے سدرہ پہ جبریلِ امیں
اور وہ پردہ نشیں تک آ گیا

پردہ نشیں - بہت خوبصورت منظر کشی