ہم سے پہلے بھی کئی لوگ رہے وابستہ
مکتبِِ عشق میں ہم لوگ نہیں نووارد
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
گھومتے پھرتے ہیں ہم شکل یہاں پر حاسد
داد گر کیوں ترے چہرے پہ غضب طاری ہے
مجھ پہ الزام کوئی اور نہ کرنا عائد
اک عبادت ہے مگر شہرِ وفا کے باسی
بس محبت میں نہ کہلائے کبھی وہ عابد
پھر سے دالان میں پھینکے ہیں کسی نے پتھر
کس کے آنگن میں پڑے سنگ ہوئے ہیں زائد

2
57
مزید بہتر ہو گئی ہے، مگر گزارش ہے کہ تیسرے مصرعے کو مصرعِ مستعار کے طور پر لکھیئے۔

0
مزید برآں مطلع بھی شامل فرمائیں، ورنہ غزل نہ ہو پائے گی۔

0