اکتفا ہر بات پر ممکن نہیں
کیونکہ ہر برسات بھی ساون نہیں
چھپ گئی تصویر ہم دونوں کی ساتھ
ان کو ہو تو ہو مجھے الجھن نہیں
آج تو دیدار ہو گا بالضرور
ورنہ دروازہ نہیں چلمن نہیں
آج تک دیکھے نہیں ہیں ایک ساتھ
روٹیاں مل جائیں تو سالن نہیں
غمزہ و شوخی ادا رُخصت ہوئے
کیونکہ وہ ہمّت نہیں جوبن نہیں
غربت و نکبت کا وہ عالم کہ اب
سَیر ہے گر پیٹ پیراہن نہیں
ارتکازِ حُسن ہو جب جلوہ گر
عاشقِ خستہ کی پھر گردن نہیں
آسماں کی چھت زمیں کا فرش ہے
در نہیں کمرہ نہیں مسکن نہیں
اس قدر یکجا ہیں ہم دونوں امید
ایک عرصے سے کوئی ان بن نہیں

0
2
97
عمدہ لکھا ۔ الفاظ کا انتخاب بہت اچھا تھا چند ایک جگہ روانی متاثر لگی جیسے معنی ذرا گنجل لگے

0
تبصرے کے لئے شکریہ
مگر کہاں روانی متاثّر لکھی

0