الطاف سے دلبر کے رحمت جو برستی ہے
ان قطرۂ باراں سے کونین بدلتی ہے
مٹتا ہے غمِ دنیا عقبٰی جو سنورتی ہے
پڑتی ہے نظر اُن کی تقدیر سدھرتی ہے
پڑھنے سے صلوٰت اُن پر اوقات بدلتی ہے
یہ راحتِ سینہ بھی سرکار سے ملتی ہے
گر سوز ہے دل رکھتا گفتار میں مَستی ہے
کرتے ہیں کرم آقا ہر قیل سنبھلتی ہے
فیاض تجلیٰ سے کیا باراں ہیں رحمت کے
اُس نور سے جھلمل ہے فردوس جو بستی ہے
کشکول جو دیتے ہیں خیرات سے بھر کر ہے
اک ادنیٰ سے سائل پر ہر خیر برستی ہے
بَس اُن سے محبت میں جو جان تڑپتی ہے
ہر نار بجھے اس سے ہر خُلد ترستی ہے
اُس بحر محبت کی جب موج اُبھرتی ہے
پھر بات جو بنتی ہے سینے میں اترتی ہے
دم اُن سے محبّت کا اے جان تو بھرتی ہے
سرکار کے دیوانے قدرت ہے جو کرتی ہے
محمود ہے یاد اُن کی کونین جو کرتی ہے
اُس نام سے ہر جھولی سوغات سے بھرتی ہے

2
48
ماشااللہ کیا کہنے ہیں۔

ممنون، نہایت ممنون

0