کبھی بے ساختہ اِدھر نظر کرے
کمانِ تیر اس کا ہے جدھر کرے
ہو موسمِ بہار کا گُماں مجھے
وہ ہنس کے رُخِ مہ جبیں جدھر کرے
نوازتا ہے بے حساب دُنیا کو
فِروزاں شب مری بھی وہ اگر کرے
بھری ہیں ہم نے رحم خیز آہیں بھی
وہ سنگدل پے کوئی تو اثر کرے
وہ غیر ہے تو ہاتھ چھوڑ دے مرا
ہے ہم نوا تو ساتھ میں سفر کرے
ہیں دل گُزیں وہ خواہشیں کہ پوچھ مت
کبھی ہوں تلخ ہم، وہ در گزر کرے
بَھلا دکھائی اب فِراق دیتا ہے
کہ قُربِ حُسن سانسیں منتشر کرے
جوابِ التجا ہے آسماں کا کیا
فسانہ زندگی کو مُختصر کرے
بمُہر کر رہو لبوں کو مِؔہر تم
نِگاہ سے پیام وہ نشر کرے
--------٭٭٭--------

2
111
واہ خوبصورت پیارے بھائی

0
عزیزم منیب اظہارِ رائے کے لیے ممنون ہوں
سدا خوش رہیں آپ
عدنان مُغل

0