مَیں تو سقراط نہیں
کِس لِیے زِہر پِیوں
کِس لیے فرشی خداؤں کا کروں مَیں اِنکار
کیسے اِنکار کا اِقرار کروں
نہ مَیں یحییٰؑ ہوں کہ ہیروڈ سے ٹکرا جاؤں
حق کروں حق کا ادا، حق ہی پُکارا جاؤں
سولئِ جبر پہ کِس واسطے وارا جاؤں؟؟؟
مَیں بھلا کیوں نہ کہوں بات جو دربار کہے
ظلمت و جبر سے وابستہ جو سرکار کہے
حرفِ حق ، صِدق کی ہو درپئے آزار ، کہے
کِس طرح بیعتِ فاسِق کو لگاؤں ٹھوکر
کیوں کہوں کلمہء حق برسرِ شاہِ جابر
مَیں کہاں سُنَّتِ شبّیرؑ ادا کر پاؤں
کیوں سہارہ دوں مَیں اسلام کو پھر وقتِ عصر
برسرِ شام ہو نیزے پہ صف آرا مِرا سر
لشکرِ شام لُہو میرا زمیں پر رولے
کیوں نہ خوابیدہ ضمیر اور ذرا سا سو لے
لا پتہ ہو کے مَیں کیوں عالمِ برزخ میں رہوں؟
وہ جواں رعنا جو زندوں میں نہ مُردوں میں رہے
پھر بھی ماؤں نے کبھی بین یا نوحے نہ کہے
مَیں بھی کچھ ایسے گزر جاؤں کہ "غازی نہ شہید"
بے حِسی سے جِیوں، خوابیدہ ضمیری میں مروں
مَیں تو سقراط نہیں
کس لیے زہر پیوں!!!
۔۔۔
شاعر :حماد یونس

4
117
کسی بحر پہ نہیں۔ بے وزن ہے

0
https://www.aruuz.com/?user=Amjadzafar
گزارش ہے کہ یہ آزاد نظم ہے، غالباً آپ اسے غزل کے قواعد پر پرکھتے رہے ہیں۔

0
امجد صاحب آزاد نظم بھی کسی بحر پہ ہوتی ہے - بس اس میں ہر مصرعے میں ارکان کی تعداد کا ایک ہونا ضروری نہیں ہوتا
اس نظم کی بحر بنتی ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
تو آپ کو کوئی مصرعہ ان ہی چار ارکان پہ مشتمل ملے گا اور کوئ تین کوئ دو حتیٰ کہ ڈھائ بھی ملے گا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن
فاعِلاتن فَعِلاتن
فاعِلاتن فَعِلا
حماد صاحب نے بحر اچھی نبھائ ہے

حماد صاحب آپکا خیال پسند آیا-
میرے نزدیک یہ نظم اچھی ہے اور مزید اچھی بھی ہو سکتی ہے -