بھلا دوں کیسے محبت کے اس فسانے کو |
کہ جس نے زخم دیئے روح پر سجانے کو |
وہ دشمنوں کی نگاہوں سے دیکھتا کیوں ہے |
میں ڈھال بن کے کھڑا ہوں جسے بچانے کو |
میں کب سے روکے کھڑا تھا ہجوم لوگوں کا |
جلا کے راکھ کیا خود اس نے آشیانے کو |
وہ ساتھ دیتا تو پھر دیکھتا کہ کیا ہوتا |
اکیلا کافی تھا اس شہر اس زمانے کو |
میں رک گیا ہوں کہ وہ بھی ہے درمیاں ان کے |
جو لوگ آئے ہیں شاہدؔ مجھے جلانے کو |
معلومات