بھلا دوں کیسے محبت کے اس فسانے کو
کہ جس نے زخم دیئے روح پر سجانے کو
وہ دشمنوں کی نگاہوں سے دیکھتا کیوں ہے
میں ڈھال بن کے کھڑا ہوں جسے بچانے کو
میں کب سے روکے کھڑا تھا ہجوم لوگوں کا
جلا کے راکھ کیا خود اس نے آشیانے کو
وہ ساتھ دیتا تو پھر دیکھتا کہ کیا ہوتا
اکیلا کافی تھا اس شہر اس زمانے کو
میں رک گیا ہوں کہ وہ بھی ہے درمیاں ان کے
جو لوگ آئے ہیں شاہدؔ مجھے جلانے کو

1
36
واہ بہت خوب سر۔