گزاری ہے جہاں جیسی شبِ ہجراں میں گزری ہے |
کبھی دنیا کی آندھی میں کبھی طوفاں میں گزری ہے |
نہ کوئی کارنامہ ہے نہ کوئی داستاں اپنی |
جو سچ کہہ دوں تو لگتا ہے کسی زنداں میں گزری ہے |
کسی کو ساتھ لے لیتا کسی کے سنگ ہی چلتا |
ادھیڑ و بُن کی دلدل میں غمِ انساں میں گزری ہے |
مقیّد کر کے سارے چاند تارے بر زمیں رکھ دو |
انہیں بھی لگ پتہ جائے گا پاکستاں میں گزری ہے |
اگرچہ دیکھ کر سبکو بہت کُڑھتا ہے دل میرا |
طبیعت شاد ہے پھر بھی کہ انس و جاں میں گزری ہے |
مری دیوار کے پیچھے ہے اک دیوار کا سایہ |
مکاں بدلوں تو واضح ہو گا قبرستاں میں گزری ہے |
معلومات