گزاری ہے جہاں جیسی شبِ ہجراں میں گزری ہے
کبھی دنیا کی آندھی میں کبھی طوفاں میں گزری ہے
نہ کوئی کارنامہ ہے نہ کوئی داستاں اپنی
جو سچ کہہ دوں تو لگتا ہے کسی زنداں میں گزری ہے
کسی کو ساتھ لے لیتا کسی کے سنگ ہی چلتا
ادھیڑ و بُن کی دلدل میں غمِ انساں میں گزری ہے
مقیّد کر کے سارے چاند تارے بر زمیں رکھ دو
انہیں بھی لگ پتہ جائے گا پاکستاں میں گزری ہے
اگرچہ دیکھ کر سبکو بہت کُڑھتا ہے دل میرا
طبیعت شاد ہے پھر بھی کہ انس و جاں میں گزری ہے
مری دیوار کے پیچھے ہے اک دیوار کا سایہ
مکاں بدلوں تو واضح ہو گا قبرستاں میں گزری ہے

2
106
نہ کوئی کارنامہ ہے نہ کوئی داستاں اپنی
جو سچ کہہ دوں تو لگتا ہے کسی زنداں میں گزری ہے

واااہ۔۔۔ بہت خوب

0
جزاک اللہ

0