*آج کا موضوع*!!!


*مردوں کے نام اہم پیغام*!!


پیارے دینی دوستو!!!


السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و بر کا تہ،


امید کرتی ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے، اللہ تعالی آپ سب کو اپنی ایمان میں رکھے اور اپنے کرم سے آپ سب کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور فرمائے آمین یا رب ۔

پیارے دوستو آج کا موضوع بہت اہم اور توجہ کا مرکز ہے ۔آج میں جس موضوع پر آپ سب سے بات کروں گی، اس موضوع کو توجہ سے سننا اور اس پر عمل کرنا ہم سب کے لئے لازم و ملزوم ہے ۔تو موضوع شروع کرنے سے پہلے آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ سب آخر میں مجھے اپنی قیمتی رائے سے بخوبی آگاہ کریں، کہ میں کیسا لکھتی ہوں اور مجھے اپنے موضوعات میں کیا کیا تبدیلیاں لانی چاہئیے تاکہ آئندہ آپ سب کو شکایت کا موقع نہ ملے، اور آپ سب کو میرے نئے نئے موضوعات سے سبق حاصل ہو سکے ۔


تو پیارے دوستو آج کا موضوع مردوں کے لئے بہت اہم ہے ۔ بہت دنوں سے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے آپ سب سے اس موضوع پر بات کرنی چاہیے ۔ تو آج مجھے موقع ملا اور سوچا کہ آپ سب سے یہ اہم پیغام شئیر کر دوں ۔ پیارے دوستو، ہمارے معاشرے میں 4 شادیوں کے حوالے سے بہت بات کی جاتی ہے ۔ آخر کیوں نہ کی جائے شادی کرنا ہر شخص کا مذہبی اور قانونی ھق ہے، اور یہ حق کوئی بھی اس انسان چھین نہیں سکتا ۔ مگر شادی کرنے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، اگر شادی کو انصاف اور پورے قانونی حقوق کے ساتھ نبھایا جائے تو میری نظر میں شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے ۔ 


بلکہ شادی کرنا تو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے ۔ اور میرے پیارے آقا کا پیغام یہی ہے کہ نکاح کو عام کرنا چاہیے ۔تاکہ معاشرہ بے حیائی اور فحاشی سے بچ سکے ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کرنے کے لئے دین دار اور نیک عورت کا انتخاب فرمایا ہے ۔ تاکہ ایک اصلاحی معاشرہ تشکیل پا سکے ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ دین دار اور نیک عورت کے بجائے پیسے اور خوبصورت عورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لڑکی چاہے کم خوبصورت ہو کوئی اسے منہ نہیں لگاتا ۔ بلکہ سب اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں بہت سی بہن بیٹیاں اپنے گھروں میں کنواری رہ جاتی ہیں ۔ ایسے میں انکے لئے مناسب رشتے نہیں آتے۔ 


خیر موضوع کچھ یوں تھا کہ ہمارے معاشرے میں چار چار شادیاں بہت عام ہو گئی ہیں ۔ لوگ شادیاں تو کر لیتے ہیں ۔ مگر انصاف نہیں کر پاتے ۔ شادی کی بنیاد ہمارے اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف پر رکھی گئی ہے ۔ اگر آپ انصاف نہیں کر سکتے ہیں تو ایک شادی پر اکتفا کریں ۔ تاکہ معاشرہ میں بگاڑ پیدا نہ ہو ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ شادیاں اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ 


ہمارے معاشرے میں کتنی ایسی عورتیں ہیں جو بیوہ، یتیم، اور طلاق یافتہ ہیں ۔ کوئی ان سے تو نکاح نہیں کرتا ۔ سب ایسی عورتوں سے نکاح کرتے ہیں جو جسمانی لحاظ سے انھیں خوش رکھیں ۔ زنا معاشرے میں ناسور بن کر پھیل گیا ہے ۔ شادی شدہ مرد غیر شادی شدہ عورتوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں ۔ اور اکثر شادیاں بھی مرد اس لئے کرتے ہیں تاکہ اپنی جنسی ضرورت پوری کر سکے ۔ 


خدایا! شادی ضرور کریں، مگر کسی ضرورت مند کو سہارا دیں ۔ اور اگر شادی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی پہلی بیوی سے عدل و انصاف کا رویہ اختیار کریں ۔ اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں ۔ تاکہ معاشرہ میں بگاڑ پیدا نہ ہو ۔ میں آخر میں یہی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ ہم سب کو اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے ۔ اور اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے ۔ تاکہ دنیا و آخرت میں ہمیں سخت ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ 


عورت مرد سے عزت اور محبت چاہتی ہے ۔ مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے سچے دل سے مھبت کرے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔


دعاوں کی طلبگار ۔

زندگی رہی تو آئندہ پھر نئے اور منفرد موضوع کے ساتھ حاضر ہوں گی ان شاء اللہ ۔ اللہ حافظ فی امان اللہ ۔


تحریر ۔ صباء لاہور سے


0
1
66
پیاری بہن! سب سے پہلے تو مذہبی و معاشرتی اقدار پہ لکھنا اور راۓ عامہ پیدا کرنا بہترین عمل ہے۔ شاباش
یہ دو تین چار شادیوں والا معاملہ دراصل ثقافتی سماجی ہے۔ ثقافت کلچر افرادِ معاشرہ کا اجتماعی رویہ ہے۔ ہم اسلامی معاشرہ نہیں بنا سکے یوں بقول اقبال رح
وضع میں تم نصارہ ہو تمدن میں ہنُود
تمُ وہ مسلماں ہو جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
بیرونی تقافتی یلغاروں کے دور میں ہمارا معاشرہ کنفیوژن کا شکار
ہے۔ ہماری مذہبی اخلآقی خاندانی اقدارتنزلی کا شکار ہو رہی ہیں۔ لوگ مادیت و ہوس کے زیرِ اثر خود کو ہر پابندی سے ماورا سمجھنے لگے ہیں۔ میں نے پاکستان میں بیشمار لڑکیاں گھر بیٹھیں دیکھیں جو اعلی رشتوں ، بیرونِ ملک کے انتظار کے جھانسوں میں ملیں۔
جہاں ؤالدین اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں وہیں سیاسی و ملکی حالات سے شاقی نوجوان بھی ملک سے باہر بھاگنا چاہئتے ہیں گویا اخوت و مساوات کی عدم موجودگی میں حرام کمائی، اعلی عہدوں پہ فائز ناجائز طبقہ اور مفت خور معاشرے کے افراد حقوق کا خیال رکھے بغیر زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ عربوں میں بھی زائد شادیاں ہوتی ہیں لیکن عرب اور یورپی عورتوں سے مکالمے سے میں نے اخذ کیا کہ وہ پاکستانی خاندانی نظام (ایک میاں بیؤی) کو پسند کرتی ہیں۔مگر مغربی ثقآفی یلغار نے جہاں ہمارا کلچر تباہ کیا ہے ویسے ہی حال ان کا بھی ہے۔ طلاق کی شرح مسلمُ معاشروں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ وجہ دین سے دوروی اور جن کی زمہداری تعلیم دینا تھی ان کے پاس جدید وار فئیر کے ہتھیار نہیں ہیں۔
اسلام انسان کی فلاح چاہتا ہے لیکن اسے عملا” آج اقلیت نے اپنایا ہوا ہے کہاں گئی مذہبی کتابیں ، تربیت آج لوگ تندور میں لگی مسّی روٹی کی بجاۓ پیٹزا کھانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
ہماری سراب قیادتوں کے اپنے دامن تعلیم دینی اخلاقیات اور معاملہ فہمی سے عاری ہیں تو وہ دوسروں کو آگ میں گرنے سے
کیسے بچائیں گے۔۔۔آپ جیسوں کو لکھتے اور حق و انصاف کی منادی کرتے رہنا ہے۔ یہی فلاح کا رستہ اور حکم بھی ہے۔ شکریہ
https://youtu.be/APgaLagUyvQ

0