تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
29 جولائی
غزل
ناصر کاظمی
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دو پہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
3
1
478
14 فروری
غزل
ناصر کاظمی
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
جب سے دیکھا تیا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
اور دے مجھ کو دے اورساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع
0
43
معلومات