مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے |
کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے |
مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن |
جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے |
وفا پانے کی دل میں آرزو تھی |
تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے |
تجھے سو بار سمجھایا تھا میں نے |
مگر اب تیرے کمہلانے کا دکھ ہے |
جگاتا ہے مجھے شب بھر ترا غم |
خوشی اپنی نہ بیگانے کا دکھ ہے |
لگا کچھ جھڑتے پتے دیکھ کر یوں |
مرے تنہا چلے آنے کا دکھ ہے |
اگرچہ آج حسرت چپ ہے لیکن |
تری تنقید کا طعنے کا دکھ ہے |
بحر
ہزج مسدس محذوف
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات