| اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا |
| تیر گی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا |
| اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا |
| کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| یہ سحر کا حسن یہ سیار گاں اور یہ فضا |
| یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دل ربا |
| یہ بیاباں یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا |
| سوچ تو کیا کیا کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| خلد میں حوریں تری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا |
| نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرائش حیا |
| جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا |
| جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہرِ خدا |
| بھولتا ہے کوئی اپنی انتہا اور ابتدا |
| یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا |
| کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جا بجا |
| نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا |
| پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دل فریب و خوشنما |
| جن کا ہر ریشہ ہے قند و شہد میں ڈوبا ہوا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| پھول میں خوشبو بھری جنگل کی بوٹی میں دوا |
| بحر سے موتی نکالے صاف روشن خوش نما |
| آگ سے شعلہ نکالا ابر سے آبِ صفا |
| کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| ہر نفس طوفان ہے ہر سانس ہے اک زلزلہ |
| موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ |
| مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہیں ارض و سما |
| ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
| صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیا |
| شام کو رنگِ شفق کرتا ہے اک محشر بپا |
| چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نور کا |
| جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا |
| کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا |
| ☆ ☆ ☆ |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات