یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے |
یہاں جس شے کو جو سمجھو وہی معلُوم ہوتی ہے |
نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر |
کبھی خود دُھوپ نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے |
کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی |
کبھی پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے |
وہ آہِ صُبح گاہی جس سے تارے کانپ اٹھتے ہیں |
ذرا سا رُخ بدل کر راگنی معلُوم ہوتی ہے |
نہ سوچیں تو نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں |
جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے |
جو سچ پُوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر |
وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے |
کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی |
اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلُوم ہوتی ہے |
بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر |
اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلُوم ہوتی ہے |
کبھی پُر ہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا |
سُریلے تار کی جھنکار سی معلُوم ہوتی ہے |
اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں |
خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے |
پئے بیٹھا ہُوں جوش! علم و نظر کے سینکڑوں قُلزم |
ارے پھر بھی بَلا کی تشنگی معلُوم ہوتی ہے |
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات