مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے |
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے |
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر |
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے |
دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی |
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے |
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری |
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے |
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو |
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے |
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا |
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے |
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی |
رو سوۓ قبلہ وقتِ مناجات چاہیے |
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات |
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے |
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو |
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات