یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی |
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی |
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے |
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی |
نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تو نے |
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی |
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں |
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی |
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر |
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق ِخانقاہی |
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری |
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی |
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا لَا اِلٰہ اِلاَّ |
لغتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی |
بحر
رمل مثمن مشکول
فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات