خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا
اپنے ہی دل کو نہ ہو وا شد تو کیا حاصل نسیم
گو چمن میں غنچۂ پژمردہ تجھ سے کھل گیا
دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو
کشمکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چھل گیا
قیس کا کیا کیا گیا اودھر دل و دیں ہوش و صبر
جس طرف صحرا سے لیلیٰ کا چلا محمل گیا
رشک کی جا گہ ہے مرگ اس کشتۂ حسرت کی میرؔ
نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

593

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں