دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا
لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا
گردن کشی سے اپنی مارے گئے ہم آخر
عاشق اگر ہوئے تھے ناز و غرور کیا تھا
غم قرب و بعد کا تھا جب تک نہ ہم نے جانا
اب مرتبہ جو سمجھے وہ اتنا دور کیا تھا
اے وائے یہ نہ سمجھے مارے پڑیں گے اس میں
اظہارِ عشق کرنا ہم کو ضرور کیا تھا
مرتا تھا جس کی خاطر اس کی طرف نہ دیکھا
میرِؔ ستم رسیدہ ظالم غیور کیا تھا
بحر
رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن

1492

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں