وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک |
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ہونے تک |
زندگی اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری |
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک |
ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس |
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک |
مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری |
ہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ دُعا ہونے تک |
اب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینا |
میں تو کب سے ہوں سرِ دار سزا ہونے تک |
داورا تیری مشیت بھی تو شامل ہو گی |
ایک اچھے بھلے انساں کے برا ہونے تک |
دستِ قاتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے |
عمر لگ جائے گی ہمرنگ حنا ہونے تک |
دشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فراز |
قیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک |
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات