عشق تو ایک کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے |
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے |
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے |
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے |
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے |
عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے یوں ہے |
اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے |
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے |
تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر |
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے |
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے |
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے |
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز |
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے |
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات