| گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا |
| مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا |
| دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں |
| اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا |
| ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود |
| آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا |
| باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول |
| شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا |
| کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے |
| تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا |
| ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر |
| کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا |
| اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں |
| اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا |
| میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز |
| تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات