مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا |
القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا |
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے |
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا |
چیتے جو ضعف ہوکر زخمِ رسا سے اس کے |
سینے کو چاک دیکھا دل کو فگار پایا |
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں |
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا |
اتنا نہ تجھ سے ملتے نے دل کو کھوکے روتے |
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا |
کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا |
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا |
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میر سے شب |
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا |
بحر
رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات