دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا |
آپڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا |
سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ |
ہوسکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا |
بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ |
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہ نو دامن جلا |
کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں |
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا |
گرمی اس آتش کے پرکالے سے رکھے چشم تب |
جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا |
ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی |
کاٹ اپنی رات کو خار و خس گلخن جلا |
سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا |
بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا |
شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے |
دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا |
آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر |
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات