مہ و انجم سے تاریکی جہاں کی دُور ہوتی ہے
دلوں کو چاندنی روشن کرے تو نور ہوتی ہے
ہے ظرف اپنا کہاں تک ، دیکھ لینا یہ ضروری ہو
اگر ہو وصل کی خواہش ، تو منزل طُور ہوتی ہے
انہیں اس سے غرض کیا چاند نکلا یا نہیں نکلا
مقدّر میں سدا جن کے شبِ دیجُور ہوتی ہے
تدبّر سے ہمیشہ کام لینا چاہئے ہم کو
خوشی گرچہ وہی ملتی ہے جو مقدور ہوتی ہے
حسیں محبوب سے بڑھ کر نظر کوئی کہاں آئے
محبّت کے نشے میں جو نگہ مخمُور ہوتی ہے
عیاں کرتا خدا خود ہے ، محبّت چھپ نہیں سکتی
وہ دنیا کی نگاہوں سے اگر مستور ہوتی ہے
ترقّی چومتی ہے جب قدم اللہ والوں کے
کلیجے میں وہ دشمن کے بنی ناسور ہوتی ہے
صبا خوشبو لئے آتی ہے اس کے جب دریچے سے
نظر آتا ہے سب کو کس قدر مسرور ہوتی ہے
تمہیں بھی تجربہ ہو گا ملے ہو اس سے جب طارق
کہ اس کے سامنے ہر شے لگے ، مسحور ہوتی ہے

0
20