| ایسا انصاف کا معیار بنایا جائے |
| اونٹ بھی سوئی کے ناکے سے گزارا جائے |
| شرق تا غرب جہالت کے اندھیرے چھٹ جائیں |
| علم کا ایسا زمانے میں اجالا جائے |
| گھر تو پھر گھر ہیں، سیاہ بخت منور کر دے |
| ایسا سورج کوئی مشرق سے ابھارا جائے |
| زندگی بھر نہ کسی آنکھ سے آنسو برسیں |
| اب نہ بے جرم و خطا کوئی بھی مارا جائے |
| لا پتہ، ہوکے پتے والے، نہ اب کہلائیں |
| اب کسی گھر سے کسی ماں کا نہ پیارا جائے |
| آؤ سب ظلم کے دروازے مقفل کر دیں |
| اب کوئی میر ا نہ جائے نہ تمہارا جائے |
| کوئی صورت ہو اسے شرک گوارہ کب ہے |
| جب پکاریں تو فقط اس کو پکارا جائے |
| یوں تو ہر شخص ہی مصروف عمل ہے لیکن |
| کون جانے کہ کہاں وقت کا دھارا جائے |
| جب کہ فطرت کا بدلنا نہیں ممکن تو پھر |
| آستینوں میں کوئی سانپ نہ پالا جائے |
| شرط اتنی ہے اگر خود کو بدل دینا ہے |
| اپنے فرسودہ خیالوں کو اجالا جائے |
| ہر زمانے کے بدل جاتے ہوئے سانچوں میں |
| موم کی طرح کبھی خود کو نہ ڈھالا جائے |
معلومات