ساروں نے ہی بچپن میں حسیں کیسے سپنے مگر بڑے دیکھے تھے |
ملت کے بہی خواہوں کی طرح جزبے بھی بہت بنے دیکھے تھے |
صدیوں جو حکومت چھائی دہر پر کیسی حشم سے ہماری تھی |
ہائے یہ ستم پھر عظمت و شوکت کو کھوتے ہوئے دیکھے تھے |
بھاتی ہے بھلا آسودگی، فرحت کس کو یہاں کسی کی کیوں کر |
خوشیوں سے بھرے اپنے بھی مکاں پر کیسے عدو جلے دیکھے تھے |
احسان فراموشی نئی کوئی بات رہی ہے کہاں اب تو |
غربت کی ہنسی کرنے وہی تھے، جو اپنے ہی گھر پلے دیکھے تھے |
سچائی پہ ناصؔر چلنے کی کوشش کو بھی ضروری ہی سمجھیں ہم |
بے راہ روی کرتے رہیں ان کو زحمتوں میں گھرے دیکھے تھے |
معلومات