سورج اک روز پھر سے ابھرے گا
اس کے مغرب سے میرے مشرق کا
میری آنکھوں کو سارے عالم میں
بن ترے کچھ نظر نہیں آتا
میں ہی کیا جب سے تجھ کو دیکھا ہے
حال اچھا نہیں ہے ناصح کا
دو ضدیں ایک کیسے ہو جاتیں
سر پھرا میں تو وہ بھی خود سر تھا
ہے وہی کامران دنیا میں
جو ہو تن اجلا اور من کالا
بات یہ ہی مگر حقیقت ہے
من ہو اجلا تو ہر کوئی اجلا
پیار میںخار بھی ہیں پھولوں سے
نفرتیں ہوں تو پھول بھی کانٹا
فرقتوں میں یہ دن یہ رات نہ پوچھ
کیسے گزری ہے کس طرح کاٹا
جب سے دیکھا ہے سوچ میں گم ہوں
کب اسے پہلی بار دیکھا تھا
میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں
جس کا ہو رنگ روپ سورج سا
صبح کا بھولا شام لوٹ آئے
دیکھ گھر کا کھلا ہے دروازہ
اے حبیب ان گنت ستاروں میں
میری تقدیر کا کوئی تارا؟

0
81