مجھے چھوڑ کر یونہی راہ میں وہ چلے گئے ہیں تو کیا ہؤا
یہ تو ان کی مرضی ہے جو کریں ولے مَیں نہ اُن سے جدا ہؤا
ہیں جو ماہ و سال رکے رکے یہ گزر ہی جائیں گے ایک دن
یہاں وصل و قرب کا کام کیا یہاں کس کا وعدہ وفا ہؤا
شبِ ہجر گر چہ طویل تھی چلیں جیسے تیسے گزر گئی
یہاں دن کا سورج بھی بارہا رہا بادلوں میں چھپا ہؤا
کبھی فرض کوئی قضا ہؤا تو کہا یہ شیخ نے قرض ہے
سبھی نادہندہ ہیں شیخ جی یہاں کس کا قرض ادا ہؤا
سرِ رہ کسی نے قریب سے لیا نام تیرا تو چَونک اُٹھے
جو نگہ پڑی تو رقیب تھا تری دوستی کا ڈسا ہؤا
یہاں ایسے لوگ بھی ہیں کئی پھٹی چادروں کے لباس میں
کبھی جن کے واسطے آج تک کہیں کوئی باب نہ وا ہؤا
درِ میکدہ کے ہجوم میں نظر آئے ہیں مجھے شیخ بھی
یہی اک ٹھکانہ تھا شہر میں تری دسترس سے بچا ہؤا
ہے شنید کچھ کہ امید وہ ہوئے ریزہ ریزہ تو کیا عجب
وہ جو تمکنت تھی غرور تھا کہو کیسے گردِ ہوا ہؤا

65