کیا ملا آ کے مجھے کوچۂ رسوائی میں
فاصلے بڑھتے گئے ان سے شناسائی میں
گر میں ڈوبا ہوں تو ساحل پہ نہ ڈوبا ہوں گا
کوئی جا کے مجھے ڈھونڈو ذرا گہرائی میں
سچ سے چھلنی ہوئے لوگوں کی جو حالت دیکھی
اعتبار اٹھ گیا ہر طرح کی سچائی میں
وصل کے وقت پہ اک شخص فنا ہوتا ہے
مجھ کو ماتم کی صدا آتی ہے شہنائی میں
آنکھ والوں کو نظر ہی نہیں آتا شاہدؔ
بھیڑ میں ہوتے ہوئے ہوں بڑی تنہائی میں

44