| مجھ سے ملنے میں صنم رسوائیوں کا خوف تھا |
| آپ کو توبھیڑکی پرچھائیوں کا خوف تھا |
| دشمنوں کی چال سے مجھ کو نہیں لگتا تھا ڈر |
| نا سمجھ کی کی ہوئی اچھائیوں کا خوف تھا |
| ہم سمندر پار کر لیتے تھے یوں ہی تیر کر |
| موج کا نا تو ہمیں گہرائیوں کا خوف تھا |
| راہ میں کوئی کہیں خنجر نہ مارے پیٹھ پر |
| ہم کو دوجوں کا نہیں بس بھائیوں کا خوف تھا |
| جانِ جاں جب سے ملے ہو مجھ سے خوش رہتا ہوں میں |
| پہلے مجھ کو بھی صنم تنہائیوں کا خوف تھا |
| خود سے ہی ان کھائیوں کے پار جانا ہے مجھے |
| ہر ستارے کو کبھی جن کھائیوں کا خوف تھا |
| قد و قامت خوب ہو طیب جڑیں ہوں کھوکھلی |
| مجھ کو ایسے پیڑ کی اونچائیوں کا خوف تھا |
| محمد طیب برگچھیاوی سیتامڑھی मोहम्मद तैयब बरगछियावी सीतामढ़ी |
معلومات