ایک عرصے سے مجھے یہ وہم دامن گیر ہے |
جو ترے کمرے میں رکھی ہے مری تصویر ہے |
سن کے میری داستاں گویا ہوئے مجھ سے خطیب |
خواب تو اچھٖا تھا یہ کس خواب کی تعبیر ہے |
رات تو گھُپ تھی ہی لیکن کمرہ بھی تاریک تھا |
تیرے آنے سے لگا ہر چیز پر تنویر ہے |
ایک بھی بیٹا نہیں تھا سب کہاں سے آ گئے |
ہر کوئی کہتا ہے میرے باپ کی جاگیر ہے |
عزت و توقیر بھی ہوگی یقیناً حکمراں |
مال و دولت کی پرستش سب کو ہی اکسیر ہے |
اپنے اپنے کام میں مشغول ہو لیکن ذرا |
سامنے دیوار پر بھی پڑھ لو کیا تحریر ہے |
اور بھی ہوں گے محاسن پر کئی صدیوں سے اب |
صوفیٔ و مُلا ٖکا منصب قوم کی تکفیر ہے |
سارے لفظوں سے دعائیں مانگ کر بھی نامراد |
اللہ جانے کس لغت کے حرف میں تاثیر ہے |
نہ کہیں پہلے تھی عزّت اور نہ اس دَور میں |
مفلس و نادار کی تقدیر میں زنجیر ہے |
روک رکھّا ہے مجھے مجبورئی اظہار نے |
ورنہ میرے سینے میں بھی نالۂ شبگیر ہے |
کس کو دلچسپی ہے تیرے شعروں میں خواجہ امید |
پھر بھی کچھ کہتے ہیں تیری بات میں تاثیر ہے |
معلومات