وہ ماورائے عقول و دانش تھا آج تک ماورا رہا ہے
ہے
سمجھ سے بالا ہے ذات اس کی مگر دلوں میں سما رہا ہے
اگر ہوں موسیٰ جھلک کے طالب تو باز رہنے کا حکم آئے
کہیں پہ پردے اٹھا کے سارے وہ اپنے جلوے دکھا رہا ہے
اے مالکِ ملک تیری نظرِ کرم ہے ورنہ بھٹک ہی جاتا
کہ ایک عرصہ سے نفسِ امارہ تیری رہ سے ہٹا رہا ہے
وہ بے نیازی کہ کاسہِ چشم خانہ کعبہ سے خالی لوٹے
عطا کہ گھر میں سوئے ہوؤں پر بھی اپنے درشن لٹا رہا ہے
اے ربِ یومِ حساب اپنا حساب سارا الٹ پلٹ ہے
مقامِ میزان پر عطا ہو فقیر کاسہ بڑھا رہا ہے
صمیم اپنا مبالغہ بھی نہ ذاتِ حق کی ثنا کو پہنچے
لگے کہ تیرا یہ خام خامہ ہوا کا نقشہ بنا رہا ہے

0
113