عجب ظاہر محبت یہ نگارِ بیخودی کیا ہے
ضروری ہے کہ ہو اظہار ورنہ دل لگی کیا ہے
ظفریابی محبت میں شکستہ ہو کے ملتی ہے
اگر دل عشق میں تڑپا نہیں تو عاشقی کیا ہے
مقدس عشق کرنے کی غرض سے آ ملا تجھ سے
سوائے عشق و الفت میرے آگے زندگی کیا ہے
یہ وعدہ کر ہمیشہ ساتھ رہنا دلربا ہوگا
اگر تو ساتھ ہو ساقی تو مجھ کو پھر کمی کیا ہے
نہیں ایسی کشش دیکھی نہیں ایسی چمک پائی
تمہارے حسن سے بڑھ کر ضیا کیا روشنی کیا ہے
گل و بلبل کی گل کاری چمن میں زینت و رونق
ترے رخسار کی رنگت ہے ورنہ دلکشی کیا ہے
ادب سے ذکر میں مصروف رہتے ہیں صنم ہم بھی
تری تعریف سے بڑھ کر وگرنہ شاعری کیا ہے
رہی خالد کے دل میں بھی یہ کچھ ہنگامہ آرائی
نیا گل آج راہوں میں کھلایا دیکھ بھی کیا ہے

0
144