تقصیر آپ کیجے نہ عہدِ شباب میں |
رکھیے چھپا کے حسن کو اپنے نقاب میں |
کارِ فضول سارے کیے ہیں شتاب میں |
بس ہم نے دیر کردی ہے کارِ ثواب میں |
لکھنے کی تھی جو بات محبت کے باب میں |
لکھنا وہی میں بھول گیا ہوں کتاب میں |
بنیادِ اعتبار ہی ہل جائے گی اگر |
لکھ دیں کہانیاں جو حقیقت کے باب میں |
ہرگز برا نہ مانیے ماں باپ کا کہا |
ہوتی ہیں ان کی شفقتیں پنہاں عتاب میں |
ظالم نے پھاڑ ڈالے وہ اوراق دوستو |
آیا جہاں بھی ذکر ہمارا کتاب میں |
لطفِ نگاہِ ناز یگانہ ہے ساقیا |
ہرگز نہیں ہے بات وہ جامِ شراب میں |
یاروں کی میرے یاریاں کتنی عجیب ہے |
اپنی خطا وہ لکھتے ہیں میرے حساب میں |
کہتا ہے جونؔ چائے ہے افضل ترین شے |
اور فارحہ کہے کہ مزہ ہے شراب میں |
نکلے ہر ایک حرف سے چشمے علوم کے |
حسانؔ لکھ تو ایسی عبارت کتاب میں |
معلومات