| جھکائے سر کو جب آتے ہیں شہرِ طیبہ میں |
| خیال با ادب آتے ہیں شہرِ طیبہ میں |
| ۔ |
| ملک پروں کو بچھائے ہیں حوریں گاتی ہیں |
| شہنشہِ عرب آتے ہیں شہر طیبہ میں |
| ۔ |
| یہاں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں شب میں |
| سو ہم بوقتِ شب آتے ہیں شہرِ طیبہ میں |
| ۔ |
| نہ مال و زر سے یہاں پر بنے ، نہ عہدے سے |
| انھیں کے منتخب آتے ہیں شہر طیبہ میں |
| ۔ |
| شہ و گدا ، نبی و مرسلین ، موم و حجر |
| بڑے ہی با ادب آتے ہیں شہرِ طیبہ میں |
| ۔ |
| تکیں بہ رشک مدثر ملائکہ بھی جنھیں |
| وہ درِ بو العجب آتے ہیں شہر طیبہ میں |
معلومات