کاٹا ہے سر حسینؑ کا خواہر کے سامنے
بھائی ہے ڈوبا خون میں مادر کے سامنے
حلقوم پہ لعیں نے کیا جس گھڑی ہے وار
ماں نے ہے رکھا ہاتھوں کو خنجر کے سامنے
شمرِ لعیں نے بالوں سے سر کو اُٹھایا پھر
ظالم نے سر کو پھینکا ہے لشکر کے سامنے
ٹھو کر سے مارتے تھے سرِ شاہؑ کو لعیں
آفت بپا تھی دشت میں خواہر کے سامنے
ظالم نے شہ کے سر کو اچھالا ہے نیزے پر
گرتا ہے سر وہ خاک پہ دختر کے سامنے
چھینے ہیں دُر بھی کانوں سے شمرِ لعین نے
اس پر طمانچے مارے ہیں سرور کے سامنے
آنکھوں سے شہ کے خون بھی ہونے لگا رواں
لایا گیا ہے سر کو جو چادر کے سامنے
دشتِ بلا میں خاک پہ بے سر پڑا حسینؑ
رو کر یہ کہتی فاطمہ حیدر کے سامنے
صائب رضا کرے بھلا کس طرح سے بیاں
محشر بپا تھا زینبِؑ مضطر کے سامنے۔

0
17