حاکمِ وقت کی بیٹی سے محبت کر کے |
کیا ملا تجھ کو قبیلے سے بغاوت کر کے |
رات بھر آہٹیں تو خواب دریچوں پہ رہیں |
دیکھ پھر بھاگ گئے خواب شرارت کرکے |
تو نہ آئے گا تو اک پیکرِ نایاب ترا! |
میری آنکھوں میں ا±تر آئے گا ہجرت کرکے |
پھول اب زخم کی تصویر نظر آتی ہے |
میرے جذبوں کی رداو¿ں سے شکایت کرکے |
میں نے ہر رنگ میں جینے کی ہنر سیکھا ہے |
جینا چاہو تو جیو مجھ کو ملامت کرکے |
اور کتنی لکیریں ہیں سفر کی دیکھ±وں |
کتنے انجان سے رستوں کی مسافت کرکے |
آج پھر سر کو جھکائے ہوئے گھر پر عابد |
تھک گیا خود کو غبارِ رہِ وحشت کرکے |
معلومات