مجھے تم اپنے دامن میں چھپا لیتی تو اچھا تھا
یہاں در در کی ٹھوکر سے بچا لیتی تو اچھا تھا
جہاں پر ہم ملے تھے میں وہیں پر چھوڑ آیا تھا
مرا دل منتظر کب سے اٹھا لیتی تو اچھا تھا
وہ اتنے قیمتی کب تھے چھپا کر کیوں انہیں رکھا
وہ پتھر ہو گئے ان کو بہا لیتی تو اچھا تھا
بھروسہ پیار پر تم کھو چکی تھی جب ملی مجھ سے
تم آخر میں مجھے بھی آزما لیتی تو اچھا تھا
ادھوری ہی رہی خواہش تمہیں میں کہہ سکوں اپنا
مجھے اک لمحے کو اپنا بنا لیتی تو اچھا تھا

0
65