نجوم و شمس و قمر کیوں نہ ہم زباں بنتے
فلک نے دیکھے ہیں ابرو ترے کماں بنتے
چرا نہ ہم سے نگاہیں کہ ہم نے دیکھا ہے
ہر ایک بات پہ سو سو کہانیاں بنتے
زمین چیختی اور آسمان پھٹ جاتا
جو دل میں اٹھی ہوئی ٹیس کی زباں بنتے
اے جذبِ شوق ٹھہر دیر ہی نہیں لگتی
کلی کی خندہ لبی کو عذابِ جاں بنتے
چھپا لیا گیا چہرہ کہ ہم نہیں دیکھیں
لب و نظر کا مسکنا پہیلیاں بنتے
جو تو نے زلف سنواری تو یہ خیال آیا
اے کاش ہم ترے ہاتھوں کی انگلیاں بنتے
اتر کے پار جلایا نہ جا سکا بیڑا
سو کیسے جہدِ محبت میں کامراں بنتے
پئے تھے اشک کہاں دیکھنا گوارہ تھا
کسی کا پھول سا چہرہ دھواں دھواں بنتے
حبیب میکش و زاہد سبھی کے دیکھے ہیں
بتوں کی چاہ میں ملبوس دھجیاں بنتے

0
33