ہو کر وہ میرے سنگ نہ پھر بھی مِرا ہوا
بس عاشقی میں ہونا تھا جو بھی ہُوا ، ہوا
کیا کیا تجھے بتاؤں بھلا زندگی کا حال
ارمان میرے قلب کا ہر اک فنا ہوا
مت بن وکیل پیار کا ، مت دے کوئی دلیل
باتوں سے تیری ، زخمِ محبت ہرا ، ہوا
دشمن کا کیا بتاؤں کہ بھائی کا ہے یہ حال
اچھا بھی کچھ کہو، تو وہ الٹا خفا ہوا
خاموش اگر رہوں تو ، میں مغرور ہو گیا!
بے باک کچھ کہوں تو نہایت بُرا ہوا
جو قلب کا سکوں ہے مری زیست میں ابھی
رہبر بھی اس کے دل میں کبھی تھا بسا ہوا

0
3