ہر طرف صحرا ہے یا محمل ہے ریگستان ہے
راستوں کی گرد میں بھٹکا ہؤا انسان ہے
وادئی عقل و خِرد میں منفعت پر زور ہے
قلب و رُوح کی پرورش کا راستہ انجان ہے
رشتوں کے دامن میں پیہم نکبت و افلاس ہے
من و تُو کے شور میں شہر و نگر ویران ہے
کیا ہؤا انسان کو کیا نسلِ آدم مِٹ گئی
ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا پاکستان ہے
ایشیا میں ہر طرف قانون سے کھِلواڑ ہے
پوری دنیا اصل میں مفلس کا قبرستان ہے
لُٹ گئی جھُگیّ غریبوں کی ندارد آب و گُل
نہ کہیں روٹی نہ کپڑا ہر جہت ویران ہے
آدمی تو کارخانوں میں جُتے ہیں رات دن
عورتیں غیروں کے بستر آبرو ویران ہے
اندریں حالات میں بچّوں کی تربیّت محال
جو دیا ہے لے لو واپس کاٹھ کا انسان ہے
چارہ گر کو کیا پڑی ان کا مداوا کر سکے
جب محبّت ہی نہیں تو کیسا دعویٰ کر سکے

0
67