تری عزت افزائی پر آنسو نکل پڑے |
مری بے بسی جو دیکھی پتھر پگھل پڑے |
ترے منہ سے جھڑتے پھول دیکھے جو کوئی بھی |
بری سوچ میں بھی اس کی تو جی خلل پڑے |
مرے پاس تو شکووں کا انبار ہی ہے جی |
ہاں اِک شکوے پر ہر ایک رشتہ اچھل پڑے |
ہاں دیکھا نہیں ہے تجھ سا رشتوں کا پاسباں |
ترے دم سے تو جی ٹوٹتا گھر سنبھل پڑے |
سبھی کے پیارے میرے بھی گلے لگ جا ئو |
کوئی دن لا ٹری میری بھی تو نکل پڑے |
ہاں سچ ہے سچا عاشق وہی ہے جہاں میں حسن |
جو معشوق سے بن سوچے ملنے کو چل پڑے |
معلومات